زمیں پہ چل نا سکا آسمان سے بھی گیا
کٹا کے پر کو پرندہ اُڑان سے بھی گیا
تباہ کر گئی پکے مکان کی خواہش
میں اپنے گاؤں کے کچے مکان سے بھی گیا
پرائی آگ میں خود کو جلا کے کیا ملا تجھ کو
اسے بچا نا سکا اپنی جان سے بھی گیا
بھلانا چاہا تو بھلانے کی انتہا کردی
وہ شخص اب میرے وہم و گمان سے بھی گیا
کسی کے ہاتھ کا نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
ہدف کو چھو نا سکا اور کمان سے بھی گیا
Posted on Aug 28, 2012
سماجی رابطہ