موت اور زندگی کے درمیان

وہ موت کے منہ سے واپس زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ واقعات کے مطابق امریکہ کا بیالیس سالہ چیری کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے گھر جارہا تھا کہ راستے میں ایک لمبی سی تار اس کے نمپر سے لگی اور پہیوں میں لپٹ گئی۔ اس نے سڑک سے کار کو تقریباً پچاس فٹ پرے کرلیا ۔ تار بُری طرح پہیوں سے اُلجھی ہوئی تھی ۔ اس نے تار الگ کرنے کی غرض سے کار کو جیگ لگایا اور کار کے نیچے لیٹ کر تار کو سلجھانے لگا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ جیک اپنی جگہ سے کھسکا اور کار چیری کے سینے پر آگری اور وہ بری طرح پھنس گیا۔ وہ بالکل ہل جل نہیں سکتا تھا گویا کار کے نیچے دب کر رہ گیا تھا۔ چیری نے بتایا کہ اس کے دادا کی موت بھی اسی طرح کار کے نیچے دب کر ہوئی تھی اس وقت اس کی عمر چار برس تھی اور اس کے ساتھ اس کی بہن نے بھی دادا کو کار کے نیچے دب کر مرتے دیکھا تھا، لیکن وہ دونوں بچے تھے اور اپنے دادا کی کوئی مدد نہ کرسکتے تھے۔ چیری کا کہنا ہے کہ میری کار سڑک سے دور ہونے کی وجہ سے میری آواز گزرنے والی کاروں تک نہ پہنچ سکتی تھی۔ جب کوئی بھی کار قریب سے گزرتی میں زور سے چلاتا اور مدد کے لیے پکارتا لیکن کسی کو میری آواز سنائی نہ دیتی حتی کہ شام ہوجاتی۔ اسی طرح دن پر دن گزرنے لگے تو بھوک اور پیاس نے مجھے بری طرح نڈھال کردیا۔ میں تڑپ تڑپ کر اور رو رو کر خدا سے دعائیں مانگتا اور کہتا کہ میرے خدا میں نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا۔ ماں کی خدمت کی۔ کیا میں بھی اپنے دادا کی طرح تڑپ تڑپ کر مرجائوں گا۔ کار کا وزن 3200 پونڈ تھا اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے پوری زمین میرے سینے پر آپڑی ہے۔ میں نے اپنے نیچے سے ہاتھ سے کرید کرید کر مٹی ہٹانی شروع کی تاکہ مجھے آسانی سے آسکے۔ اب آہستہ آہستہ مجھے اپنی زندگی کی اُمید ختم ہوتی نظر آرہی تھی۔ میں سسک سسک کر مررہا تھا۔ بے بسی اور لاچاری سے میری آنکھوں میں آنسوں بھی خشک ہوچکے تھے۔ دن گزرنے کے بعد جب رات آتی تو سردی کی شدت کی وجہ سے میں برف کی طرح ہوجاتا، مچھروں نے کاٹ کاٹ کر میرا بُرا حال کردیا تھا۔ بار بار مجھے اپنی ماں اور بیٹی کا خیال آتا تھا کہ وہ میرا انتظار کررہی ہوں گی۔ چار راتیں گزرچکی تھیں اور پانچواں دن تھا۔ میں مکمل طور پر نااُمید ہوچکا تھا۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال تھا۔ موت میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ شام ہونے والی تھی کہ ایک کار کی آواز مجھے قریب سے سنائی دی۔ میں نے اپنی پوری تباہ شدہ قوت کو جمع کیا اور یکدم چلایا۔ میری آواز قریب سے گزرتی ہوئی کار میں سوار افراد نے سن لی۔ وہ بھاگے بھاگے آئے اور یہ منظر دیکھ کر فوری امدادی ٹیموں کو اطلاع دی، پھر مجھے کار کے نیچے سے نکالا گیا اور فوراً اسپتال پہنچایا گیا۔ ان دنوں میں میرا وزن اٹھائیس پونڈ کم ہوچکا تھا۔ جسم میں پانی کی بھی کمی ہوگئی تھی۔ چند روز ہسپتال میں طبی امداد اور خوراک ملنے کے بعد میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو خدا کا شکر ادا کیا۔ اب میں جان گیا ہوں کہ جب انسان موت کے قریب ہوتا ہے تو اُسے تب ہی زندگی کی قدر معلوم ہوتی ہے۔

Posted on Nov 26, 2011