3 جنوری 2011
وقت اشاعت: 10:29
بوڈا پسٹ
بوڈا پسٹ، ملک ہنگری کا سب سے بڑا شہر اور اس کا دارلحکومت ہے۔ یہ دریائے ڈینیوب کے دونوں کناروں پر ہنگری کے شمالی حصہ میں واقع ہے۔ اس شہر میں ہنگری کی %20 آبادی مقیم ہے۔ شہر بوڈا پسٹ اس ملک کی ثقافت اور صنعت کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔
1873ء میں تین قصبوں بوڈا پسٹ اور اوبڈا کو اکٹھا کردیا گیا۔ اور اسے نئے خود مختار ہنگری کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ ہنگری کے رہنے والے اس شہر کے لئے پسٹ کو ایک عرفی نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
بوڈا پسٹ کی آب و ہوا معتدل ہے۔ موسمِ بہار عام طور پر اپریل کے مہینے کے شروع میں آتا ہے۔ اور اس کے بعد گرمیوں کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔ جو گرم اور مرطوب ہوتا ہے۔ جولائی کے مہینے کا اوسط درجہ حرارت 22 درجے سینٹی گریڈ (F 72°) ہوتا ہے اور سردیوں کے موسم میں یہاں پر زیادہ تر بادل چھائے رہتے ہیں۔ اور یہاں فروری کے مہینے کا اوسط درجہ حرارت 2C- ڈگری سینٹی گریڈ تک ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ان دنوں میں شدید برف باری ہوتی ہے۔ بوڈا پسٹ کا رقبہ 525 مربع کلو میٹر (یا پھر 203 مربع میل) ہے۔
بوڈا پسٹ کا ایک علاقہ جس کا نام بڈا ہے۔ یہ ڈینیوب دریا کے مغربی حصہ پر واقع ہے۔ اور یہ شہر کے ایک تہائی حصے پر واقع ہے۔ جب کہ پسٹ کا علاقہ ڈینیوب دریا کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ اور یہ علاقہ شہر کے دو تہائی حصہ کو گھیرے ہوئے ہے۔
اس دارالسلطنت نے 2,250 مربع کلو میٹر کا رقبہ گھیرا ہوا ہے اور اس میں آٹھ دوسرے شہر اور ستر دیہات موجود ہیں۔ جن میں سے کچھ کو کچھ عرصہ پہلے ہی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ کیوں کہ بہت سے لوگ بوڈا پسٹ سے باہر ہجرت کرر ہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم Vac اور Godollo شامل ہیں۔ جو کہ ڈینیوب دریا کے مشرقی کنارے پر واقع ہیں اور Budaors اور Budakeszi جو کہ ڈینیوب دریا کے مغربی کنارے پر واقع ہیں۔
بوڈا میں بہت خوبصورت چرچ ہیں اور یہاں لوگوں کے لئے بہت شاندار قسم کی رہائش گاہیں ہیں، پڑوسی ملکوں کے لوگوں کے لئے بھی رہائش گاہیں ہیں۔ بوڈا کا علاقہ پہاڑی علاقہ ہے۔ جب کہ پسٹ کا علاقہ، میدانی علاقہ ہے۔ بوڈا کی پہاڑیاں 150 میٹر سے 500 میٹر کی اونچائی تک ہیں۔
پسٹ کا علاقہ بوڈا کے مقابلے میں صنعتی لحاظ سے آگے ہے اور یہاں بہت مشہور شاپنگ سینٹر ہے جس کا نام Vaci Avenue ہے۔ ہمسایہ ممالک کے لوگوں نے بھی بوڈا اور پسٹ میں اپنی صنعت کو فروغ دیا ہے اور اس شہر کے مختلف حصوں میں آباد ہیں۔
بوڈا میں انتہائی شاندار اور انوکھی یادگار نشانیاں کیسٹل ہِل پر موجود ہیں۔ یہ بوڈا ہل کے مرکز میں واقع ہے۔ جب کہ بہت سی یادگار Gellert Hill پر واقع ہیں جو کہ بوڈا کے جنوب میں ہے۔
رائل پیلس، کیسٹل ہل کی چوٹی پر واقع ہے۔ اور دوسری عالمی جنگ (1945-1939) کے بعد اُسے ایک میوزیم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
بہت زیادہ قابلِ تعریف Gothic Matthias Church جو کہ کیسٹل ہِل پر واقع ہے۔ جسے انیسویں صدی کے اختتام پر پندرھویں صدی کے تہذیب و تمدن کے مطابق تعمیر کیا گیا۔
1851 میں Gellert Hill کی چوٹی پر آسٹریلین نے Citadel تعمیر کیا۔ اُس وقت ہنگری پر آسٹریلین ہی حکمران تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی اس کو اپنی فوج کی نقل و حرکت کے لئے استعمال نہیں کیا تھا۔
Liberation Monument بھی Gellert Hill کی چوٹی پر واقع ہے جو 1947 میں یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (USSR) کی فوج نے تعمیر کیا تھا لیکن ان کے چھوڑ جانے کے بعد جب ہنگری کی کمیونسٹ پارٹی نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تو انہوں نے 1990 میں اس Liberation Monument (آزادی کی یادگار) کو گرا دیا۔
دریائے ڈینیوب پر آٹھ پُل ہیں۔ جو بوڈا اور پسٹ کو ملاتے ہیں۔ ان میں سے سات پُل دوسری جنگِ عظیم سے پہلے تعمیر کئے گئے۔ اور ان تمام کو دوسری جنگِ عظیم میں نقصان پہنچا۔ بعد میں ان کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔پسٹ گنجان آباد علاقہ ہے اور زیادہ تر لوگوں کا تعلق صنعتوں سے ہے۔ شہر کے اندرونی حصے میں ٹاؤن ہال جو 1749 میں بنیادی طور پر پرانی افواج کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ اب وہ اس کا ٹاؤن ہال ہے۔
ہنگری کا نیشنل میوزیم 1802 میں تعمیر کیا گیا۔
1905میں Basilica of Saint Stephen پایہ تکمیل کو پہنچا۔
1884 میں Neo-Russian Opera House تعمیر ہوا۔ہنگری کی سائنس اکیڈمی کی عمارت 1865 میں مکمل ہوئی اور پارلیمینٹ کی عمارت 1904 میں بنی۔
سٹی پارک پیسٹ کے شمال مشرقی حصے میں گریٹ بلیوارڈ کے عقب میں واقع ہے جس میں کئی خوبصورت میوزیم بھی ہیں جن میں Vajda Hunyad Castle بھی ہے جسے انتہائی مہارت سے تعمیر کیا گیا ہے۔
2000ء میں بوڈا پسٹ کی آبادی 1,811,522 تھی۔
1980ء کے آخر میں یہاں جمہوری حکومت قائم کی گئی۔ بوڈا پسٹ میں رہنے والے زیادہ لوگ ہنگرین ہیں۔یہاں کی حکومت نے Ethnic اقلیتوں پر ان کے اعداد و شمار کے مطابق توجہ نہیں دی حالانکہ ایک اندازے کے مطابق روما، (Gypsy) کی اقلیت اس شہر کی آبادی کا آٹھ فیصد ہے۔
1990 کے آغاز سے Ethnic Chinese بھی واضح اقلیت بن گئی ہے خاص طور پر سٹی پارک کے جنوبی حصہ میں یہ لوگ آباد ہیں۔بہت سے ماہر اور پڑھے لکھے ہنگرین اس شہر میں دولت کماتے ہیں جب کہ دوسری اقلیتیں اس شہر سے باہر آباد ہیں۔ تقریباً Jews 100,000 بھی اس شہر میں آباد ہیں۔
بوڈا پسٹ میں گیارہ یونیورسٹیاں اور اکیس کالجز ہیں۔ یہاں بہترین لائبریریوں میں سے ایک ایرون سزابو لائبریری ہے اور یہ بوڈا پسٹ کی پبلک لائبریری ہے۔
بوڈا پسٹ میں اہم تہواروں میں بوڈا پسٹ سپرنگ فیسٹیول ہے جو مارچ کے آخری دو ہفتوں میں منایا جاتا ہے۔فیئرویل فیسٹیول جو ہر سال جون کے مہینے میں، 1991 میں سوویت کے فوجی دستوں کی روانگی کی یاد تازہ کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ اور بوڈا پسٹ آٹم آرٹ فیسٹیول جو اکتوبر کے پہلے دو ہفتوں میں منعقد کئے جاتے ہیں۔ اور ان تمام تہواروں پر ناچ گانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
سٹی پارک میں ایک جھیل ہے جہاں سردیوں میں اسکیٹنگ کی جاتی ہے۔ مارگریٹ آئس لینڈ بھی ایک بڑا پارک ہے جہاں سوئمنگ کمپلیکس ہے۔ بوڈا پسٹ چڑیا گھر کو بیسویں صدی میں بنایا گیا۔ بوڈا پسٹ دنیا کے ان بڑے شہروں میں ہے جہاں بہار کا موسم بھی گرم ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کئی ایک پول اور باتھ موجود ہیں جن میں Gellert Bath اور کسیزر سوئمنگ پول قابل ذکر ہیں۔
یہاں کی مصنوعات میں ٹیکسٹائل، بجلی کا سامان، مشینری، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر ضروریات زندگی کی چیزیں شامل ہیں۔دیگر ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس شہر میں اور شہر سے باہر غیر ترقی یافتہ علاقہ میں سرمایہ کاری کرنے اور نئے منصوبوں کے تحت کام کرنے کا پروگرام وضع کیا ہے۔
بوڈا پسٹ سیاحوں کے لئے بھی خاصی دلچسپی کا مرکز ہے۔یہاں کے شاپنگ سینٹر میں اس شہر کی روایتی اشیاء کی بھرمار ہے جب کہ زیادہ تر شاپنگ سینٹر بڈا پسٹ کے نواحی علاقوں میں ہیں۔ جو بڈا پسٹ کے سینٹرل شاپنگ سینٹروں سے مل کر ایک تجارتی نیٹ ورک تیار کرتے ہیں۔
ریلوے لائن اور ہائی ویز ملک کے دوسرے شہروں کو آپس میں جوڑے ہوئے ہیں۔ Ferihegy ائرپورٹ شہر کے جنوب میں بیس کلو میٹر پر واقع ہے جہاں سے نیشنل اور انٹرنیشنل دونوں قسم کی پروازیں آتی جاتی ہیں۔ یہ شہر کا بڑٓ ائرپورٹ ہے۔ کیسپل آئیس لینڈ پورٹ شہر کے وسط میں دریائے ڈینیوب کے دہانے پر واقع ہے۔
شہر میں بسیں اور ٹرامز لوگوں کو اِدھر اُدھر لے جانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں کا ٹریفک کا نظام پورے یورپ میں محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے۔
بوڈا پسٹ کے عام لوگوں میں جرائم پیشہ لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ہزاروں جوڑوں کو بہت کم پیسوں پر روزگار میسر آتا ہے اور وہ پریشانی کے عالم میں شہر میں چوریاں کرتے ہیں باوجود اس کے کہ گورنمنٹ نے گلیوں میں بھی پولیس کی نفری بڑھادی ہے۔ مقامی حکومت نے کئی سالوں سے اُن عمارتوں کی طرف توجہ نہیں دی جو شہر کے اندرونی حصہ میں ہیں جس کی وجہ سے وہ عمارتیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں حالانکہ ان کو توجہ کی فوری اور خاص ضرورت ہے۔ بہر حال یہ بوڈا پسٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔