6 جنوری 2011
وقت اشاعت: 12:46
بغداد
بغداد عراق کا دارالحکومت ہے یہ دریائے Tigris کے کنارے عراق کے سینٹر میں واقع ہے اس لئے اسے پورے عراق میں ٹرانسپورٹ کا سینٹر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عراق کا نمائندہ صنعتی شہر ہے آئل ریفائن کرنے، کھانے پینے کی اشیاء کے پلانٹ چمڑہ تیار کرنے اور ٹیکسٹائل ملیں بھی اس شہر کا اثاثہ ہیں۔ علاوہ ازیں ہاتھ سے تیار کردہ کپڑا بھی اس شہر کی پروڈکشن ہے۔ اوزار، جیولری، چمڑے کا سامان نمدا اور کمبل وغیرہ بھی تیار کئے جاتے ہیں۔ جو آپ لوگ بازار سے خرید سکتے ہیں۔ بازاروں میں ہمہ وقت چھوٹی چھوٹی دکانوں کی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں جہاں سے ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہیں۔
بغداد یونیورسٹی کا قیام 1957ء میں عمل میں آیا اس کے علاوہ دیگر تعلیمی ادارے بھی اس شہر میں موجود ہیں۔ المنتنصریہ یونیورسٹی 1963ء میں بنی اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی نے 1974ء میں اپنا کام شروع کردیا اس کے ساتھ جو قابل غور چیز ہے وہ ہے بغداد کا تاریخی حصہ جو قدیم باب الوستانی ہے اور اب تک بغداد کے مشہور گیٹ کے طور پر موجود ہے جسے اسلحہ کے میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
دوسری قابل توجہ عمارتیں عباسی محلات ہیں جو غالباً 1179ء میں تعمیر ہوئیں ایک کالج المنتنصریہ 1232ء میں دریافت ہوا دونوں کو بطور میوزیم استعمال میں لایا جا رہا ہے اور مرجان نامی (Mirjan) مسجد جو 1358 میں مکمل ہوئی قابل دید ہے۔
بغداد سے شمال میں چند میلوں کے فاصلے پر ایک جگہ ہے جس کا نام کاظمیہ ہے یہ واقعی غور طلب ہے کہ انیسویں صدی میں تیار ہوئی اس مسجد کی آرائش شاندار، سونے کے گنبد سے کی گئی ہے اور یہاں دین اسلام کے قابلِ احترام رہنماؤں کی زیارتیں (مزارات) ہیں۔
بغداد عباسی خلیفہ المنصور نے 762 میں دریائے Tigris کے مغربی کنارے پر تعمیر کیا۔ اس کے بالمقابل پرانے ایرانی دیہات ہیں ان کو بھی بغداد ہی کہا جاتا ہے۔ شہر کا اصل نقشہ تین ہم مرکز دیواروں کے گھیرے میں ہے۔سب سے اندرونی دیوار خلیفہ کے محل کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ درمیانی دیوار افواج کے کواٹرز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اور عام لوگوں کی رہائش کے لئے بیرونی دیوار نے گھیرا ہوا ہے۔ یعنی بغداد تین حصاروں میں اپنا دفاع کئے ہوئے ہے، تاجر حضرات اور بازار وغیرہ شہریوں کی حصاری دیوار سے باہر ہیں۔
تقریباً بغداد کی تاریخ کی ابتدا کے بعد اگلی آدھی صدی خلیفہ ہارون الرشید کے عہدِ خلافت کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ جس میں بغداد اپنی خوشحالی اور کامیابی کی بلندیوں پر تھا۔آج بھی عربی لوگ راتوں کو بیٹھ کر اس دورِ حکومت کے قصے کہانیوں سے دل بہلاتے ہیں۔اسی زمانے میں شہر کو دریائے Tigris کے مشرقی کنارے تک پھیلا دیا گیا جو بعد میں بغداد شہر کا دل کہلانے لگا۔
بے شک خلیفہ ہارون الرشید کے نقطۂ عروج کے بعد بغداد کئی ملکوں کے لئے اہم تجارتی شہر کا کلچر سینٹر رہا۔
بغداد ہلاکو کے زمانے سے زوال پذیر ہونا شروع ہوگیا۔منگول فاتح جنگش خان Genghis Khan کے پوتے نے 1258ء میں شہر کو تباہ و برباد کردیا اور یہ عباسیوں کی خلافت کا اختتام تھا۔بعد میں ترک فاتح تیمورلنگ نے اسے 1401 میں تباہ کیا۔
1508 میں بغداد ایرانی قبضے میں رہا عثمانی بادشاہ نے 1534 میں (Ottoman Empire) اس پر قبضہ کرلیا۔دوبارہ 1623 میں اس شہر پر ایرانیوں نے (Persian) قبضہ کرلیا اور 1638 تک بغداد ان ہی کے قبضے میں رہا۔اور جب یہ دوبارہ عثمانی مملکت میں شامل ہوا (تقریباً تین مزید ملک عثمانیوں کی حکومت میں تھے۔
1917 میں بغداد میں برطانوی فورس نے قبضہ کرلیا۔
1921 میں بغداد نئی تخلیق شدہ سلطنت عراق کا دارالحکومت بنا دیا گیا اور 1958 میں اسے جمہوری حکومت کے حوالے کردیا گیا۔
1991 میں ایرانیوں کے ساتھ خلیجی جنگ اور بمباری کی وجہ سے یہ شہر کافی حد تک تباہ و برباد ہوگیا اور دوبارہ 2003 کے دوران عراق امریکہ کے حملوں کا نشانہ بنا۔اپریل 2003 کے درمیان امریکی فوج نے بغداد پر قبضہ کرلیا اور صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔لوٹ مار ہوئی اور لوٹنے والوں نے شہر میں بربادی پھیلادی 2000ء میں اس شہر کی آبادی تقریباً 4797000 تھی۔بغداد میں ان شہیدوں کی یادگار بڑے خلوص سے تیار کی گئی ہے جو عراقی ایران عراق جنگ میں شہید ہوئے۔
اور اب اگست 2004 کی صورتِ حال بھی خاصی پریشان کن ہے قابض اور غیر قابض طاقتیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں جس کے نتیجے میں عراق اپنی شاندار روایات کو چھوڑ کر بُری روایات کو تازہ کرتا ہوا کبھی اپنوں کبھی غیروں کے ہاتھوں لوٹا جارہا ہے اور ایک بار پھر بربادی کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے تاحال بہتری کے آثار کافی حد تک مفقود ہیں۔ تاریخ کیا فیصلہ کرتی ہے اور حتمی طور پر کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت اور غیر دانشمندانہ ہوگا۔
بہرحال بہتری کی توقع رکھنا اور بہتری کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس کی جانب گامزن رہنا ہی انسانی ہمدردی اور مربوط اقوام کو تعبیر کی منازل سے آشنا کروانے کے احسن عمل سے عبارت ہے۔