20 جنوری 2011
وقت اشاعت: 12:55
بیت المقدس
بیت المقدس کی تاریخ تقریباً پانچ ہزارسال پرانی ہے تقریبا 2500 قبل مسیج میں Canaanites نے اس پر قبضہ کرلیا۔جب حضرت دائود علیہ سلام نے بیت المقدس فتح کیا (BC 1000) تو jewish, jebusites میں مکس ہوگئے۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنایا اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی اسی شہر کو یہ اعزار بخشا۔
BC 198 میں Antichus نے یروشلم پر قبضہ کرلیا اور پھر یہودیوں نے Maccabess کی قیادت میں شام کو فتح کیا۔
BC Temple 165 میں تعمیر کیا گیا اور اس پر Maccabess حکومت کرتے رہے ۔آخرکار BC 63 میں روم نے اس شہر پر قبضہ کرلیا۔
روم مسلسل اس شہر پر حکومت کرتا رہا اور روم ہی کے ایک گورنز نے جس کا نام Pontius Pilate تھا حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف فیصلہ دیا۔
1099 میں عیسائیوں نے اس پر قبضہ کرلیا پھر صلاح الدین ایوبی نے 1187 میں دوبارہ اس پر مسلمانوں کا قبضہ بحال کروایا اور مسلمان اس پر1517 تک حکمران رہے، پھر Ottoman نے دوبارہ اس پر قبضہ کرلیا۔
1917ٔ میں برطانیہ نے یروشلم پر قبضہ کیا اور فلسطین کا دارالحکومت بنادیا گیا جو 1948 تک برقرار رہا۔یروشلم جسے بیت المدش کا نام بھی دیا گیا، مڈل ایسٹ کے ابتدائی شہروں میں سے ہے۔اب 1967 سے اسرائیل کے قبضے میں ہے جسے اسرائیل نے اپنا دارالحکومت بنایا ہوا ہے۔
مسلمانوں کے لیے یہ انتہائی مقدس مقام ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک شب معراج پر تشریف لے گئے تھے، یعنی اللہ تبارک تعالٰی سے اللہ کے محبوب کی ملاقات کی رات جو مسلمانوں میں انتہائی عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ کیوں کہ آپ شافع ہیں اور انہیں کی شفاعت کی بدولت رب العالمین ان کی امت پر رحم فرمائے گا اور بخشش عطا فرمائے گا۔
عرب اور اسرائیل کی پہلی جنگ جو1948ء میں ہوئی اس کے بعد یروشلم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔
۱ مغربی یروشلم۔
۲ جورڈن، یعنی مشرقی یروشلم۔
1967ء کی چھ دن کی جنگ کے دوران اسرائیل نے بین الاقوامی احتجاج کے باوجود مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا اور یہ دعوی کیا کہ یہ شہر مشترکہ دارالحکومت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
بعد میں آنے والے عشروں میں بھی بیت المقدس عرب اور اسرائیل اور بین الاقوامی حلقوں کے درمیان ایک جھگڑے کا باعث رہا۔
اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے باوجود کہ اسرائیل کے جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے بلائی گئیں مگر یہودیوں کی ریاست نے یروشلم کے گرد اپنی تعمیراتی سیٹلائیٹ سیٹلمنٹ کی پالیسی کوجاری رکھا۔
فلسطینی نے غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کے تعمیراتی منصوبے کی مخالفت کی اور اسرائیل پر زور دیا کہ مشرقی یروشلم کسی بھی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہئے، جس کے تحت شہر دونوں طرف سے جھگڑے کی بنیاد بن چکا ہے۔
یروشلم 109 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔
پرانے یروشلم میں مسلمان، عیسائی، یہودی وغیرہ آباد ہیں۔
یہاں کے روایتی مصالحہ دار کھانوں کی خوشبو، چرچ کی گھنٹیوں کی زوردار آوازیں اور یہودیوں کی دعا کا انداز یہ سب چیزیں شہر کی زندگی میں خصوصی چاشنی پیدا کرتے ہیں، ان دیواروں سے باہر یروشلم بڑی بڑی عمارات، سڑکوں اور ذرائع آمدورفت کے نیٹ ورک، سپر مارکیٹ اور بزنس، اسکول اور ہوٹلز اور کافی ہاؤسز کے لحاظ سے ایک جدید شہر ہے۔