شہروں کی معلومات 
24 دسمبر 2010
وقت اشاعت: 12:11

لاہور

لاہور پنجاب کا دارلحکومت اور دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔لاہور بغیر کسی شک و شبے کے ایک انتہائی پرانا شہر ہے۔ پرانے لوگوں کا خیال ہے کہ اس شہر کو Loh نے دریافت کیا تھا۔ جو ہندو ہیرو رامایانا کا بیٹا تھا۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لاہور لفظ ”لاآور“ Loh-Awar سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے ”لوہے کی طرح مضبوط قلعہ۔“

1206ءمیں قطب الدین ایبک نے اس شہر اور برصغیر میں پہلی مرتبہ مسلمان اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اسی دور میں بر صغیر پر مسلمانوں کی حکومت کا دور شروع ہوتا ہے۔مسلمانوں کا یہ دورِ حکومت مغلوں کے دورِ حکومت 1524 تا1752 تک اپنے عروج کو پہنچا۔

لاہور کو مشہور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے 14 سال (1584 سے 1595) تک اپنا پایہ تخت بنائے رکھا اس نے پرانے قلعہ کے اوپر ایک نیا، مضبوط اور وسیع قلعہ بنایا اور شہر کے گرد ایک دیوار قائم کی جو سرخ اینٹوں سے تعمیر کی گئی اور شہر کے اندر داخل ہونے کے لئے تیرہ دروازے رکھے گئے جن کے نام یہ ہیں:
1۔ بھاٹی گیٹ
2۔ موری گیٹ
3۔ لوہاری گیٹ
4۔ شاہ عالمی گیٹ
5۔ موچی گیٹ
6۔ اکبری گیٹ
7۔ دہلی گیٹ
8۔ یکی گیٹ
9۔ شیرانوالہ گیٹ
10۔ کشمیری گیٹ
11۔ مستی گیٹ
12۔ روشنائی گیٹ
13۔ ٹکسالی گیٹ
دنیا کے کئی ممالک سے سیاح ان کا نظارہ کرنے آج بھی لاہور آتے ہیں۔مغل بادشاہ جہانگیر اور شاہ جہاں جو لاہور میں پیدا ہوئے، انہوں نے قلعے کو مزید وسعت دی محل اور باغات تعمیر کروائے۔جہانگیر اور اس کی بیوی نورجہاں کو اس شہر سے بڑی رغبت تھی۔ دونوں کے مقبرے بھی اسی شہر میں ہیں۔شاہ جہاں نے بہت سی عمارتیں بنوائیں۔

آخری مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر (1658 تا 1707) نے لاہور کو اس کی سب سے مشہور پہچان، ”بادشاہی مسجد“ دی اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔صرف 1745 سے 1756ءکے دوران لاہور میں نو گورنر تبدیل ہوئے۔

1799ءمیں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کرلیا اور اس کے دورِ حکومت میں تاریخی عمارتوں کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔انیسویں صدی کے آغاز میں لاہور محض ایک عظیم الشان سلطنت کی ایک یادگار رہ گیا تھا۔

انگریزوں نے بہت سی عمارتیں تعمیر کیں، پرانی عمارتوں کی حفاظت کے لئے بھی کئی اقدامات کئے۔ مگر بدلتا دور اپنے اثرات مرتب کرتا رہا۔1947ءمیں آزادی کے بعد لاہور پاکستان کا ایک مشہور اور اہم ترین شہر بن گیا۔

یہ پاکستانی پنجاب کا دارالحکومت اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہونے کے علاوہ اہم صنعتی اور انتظامی مرکز بھی ہے۔لاہور کی قدیم و جدید عمارتیں اپنی الگ شان سے ہر شخص کو متاثر کرتی ہیں۔

بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر، مسجد وزیر خان، سنہری مسجد وغیرہ لاہور کی پہچان رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ علاوہ ازیں جنرل پوسٹ آفس (1882) میں کھولا گیا۔ اس عمارت کو مرمت کی غرض سے تبدیل بھی کیا گیا مگر اب دوبارہ مرمت سمیت اس کی اصلی حالت میں واپس لایا گیا ہے تاکہ اس کا اپنا حسن برقرار رہے۔

لاہور عجائب گھر ، پنجاب یونیورسٹی اور ریلوے اسٹیشن، قائداعظم لائبریری اپنی طرز رعنائیوں سے بھرپور ہیں کہ اسمبلی ہال اپنی طرز رعنائیوں سے بھرپورہیں کہ اسمبلی ہال اپنی طرز کی خوبصورت اور مضبوط عمارت ہے یہ عمارتیں ہر لحاظ سے قابل دید بھی ہیں۔

لاہور کو باغات کا شہر بھی کہا جاتا رہا ہے مگر چونکہ اب آبادی خاصی بڑھ چکی ہے اس لیے چھوٹے چھوٹے باغات رہائشی کالونیوں کے حصار میں آگئے ہیں بڑے باغات اب بھی خوبصورت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ جن میں باغ جناح، گلشن اقبال،ریس کورس پارک، ناصر باغ، راوی پارک وغیرہ قابل ذکر ہی نہیں قابل دید بھی ہیں۔

لاہور تعلیمی سرگرمیوں کا بھی اہم مرکز ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ پاکستان کا واحد ایسا شہر ہے جو یہاں آنے والے کسی بھی شخص کو اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔

پاکستان کا دل ہونے کے حوالے سے لاہور عالمی سطح پر اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ انٹرنیشنل ائرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، واپڈا ہاؤس، اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔مسیحی عبادت گاہیں رومن طرزِ تعمیر کی یادیں تازہ کرتی ہیں۔

لاہور ادبی، ثقافت اور تہذیبی شہر ہی نہیں بلکہ یہاں کے تہوار اپنے اندر اتنی کشش رکھتے ہیں کہ دنیا بھر سے لوگ بسنت جیسے تہوار منانے کے لئے یہاں جمع ہوتے ہیں یہاں کے پکوان پوری دنیا میں پسند کئے جاتے ہیں اور ہر مذہب کے لوگ شوق سے تناول فرماتے ہیں۔

بزرگانِ دین اور صوفیا کے مزار اور درگاہیں بھی لاہور کی شان و شوکت میں چار چاند لگادیتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کا مزار جہاں ہمہ وقت ہزاروں لوگ حاضری دیتے ہیں انتہائی قدر و منزلت کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ عنایت سائیں قادریؒ، میاں میرؒ، شاہ حسینؒ (المعروف مادھو لعل حسین) پیر مکیؒ کے مزارات بھی زائرین کی توجہ کا مرکز ہیں۔ شہنشاہ جہانگیر کی محبوبہ انار کلی کا مزار بھی لاہور میں ہی واقع ہے اور انارکلی بازار اپنی رونق کے اعتبار سے پوری دنیا میں معروف ہے۔

لاہور کی آبادی اس وقت تقرباً 86 لاکھ ہے اور یہاں ہر طبقے کے لوگ موجود ہیں غریب سے غریب اور امیر سے امیر، ہر چند کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اس کے انتظامی امور تنزل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اس شہر کی دیکھ بھال اور انتظام توجہ طلب ہے۔

یہاں یونیورسٹیاں، میڈیکل کالجز، ٹیکنیکل کالجز اور ابتدائی سطح پر تعلیم کو عام کرنے کے لئے ان گنت تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ جس سے شرح خواندگی میں اضافے کا امکان ہمہ وقت رہتا ہے۔

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
کراچیلندن
متن لکھیں اور تلاش کریں
  • مقبول ترین
© sweb 2012 - All rights reserved.