سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا وعدہ

ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے سیدہ عائشہ صدیقہ، اُم حبیبہ، اُم سلمہ، سیدہ سودہ بنت زمعہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا تعلق خاندان قریش کے ساتھ تھا۔ باقی ازواج مطہرات کا تعلق مختلف قبائل سے تھا۔ روزانہ نمازِ عصر کے بعد رسول اقدسﷺ ازواج مطہرات کے پاس جا کر تھوڑی تھوڑی دیر بیٹھتے۔ ہر ایک حجرے میں قیام کا وقت مقرر تھا۔ ہر ایک زوجہ محترمہ کو انتظار ہوتا کہ آپﷺ تشریف لارہے ہیں۔

ایک مرتبہ چند دن آپ معمول سے قدرے زیادہ اُم المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شدت سے محسوس کیا اور اس کا تذکرہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس کسی رشتہ دار نے شہد بھیجا تھا۔ وہ روزانہ آپﷺ کی خدمت میں شہد پیش کرتیں۔ چونکہ شہد نبی اکرمﷺ کی مرغوب غذا تھی، جسے نوش کرنے کی وجہ سے قدرے زیادہ وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے حجرے میں قیام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو آپﷺ سے والہانہ محبت کی بنا پر یہ ناگوار گزرا لیکن بے پناہ ادب و احترام کی وجہ سے براہ راست اس طرزِعمل پر اظہارِ خیال کی جرأت نہ تھی۔ اس موضوع پر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے بات کی۔ باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ جب رسول اقدسﷺ باری باری ان کے حجرے میں تشریف لائیں تو ہم میں سے ہر ایک آپ سے یہ سوال ضرور کرے کہ یا رسول اللہﷺ آپ کے دہن مبارک سے کچھ غیرمانوس سی ہوا محسوس ہورہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے ہمیشہ آپ کے لب مبارک جب بھی ہلتے تو فضا معطر ہوجایا کرتی تھی۔ جب ایک ہی بات یکے بعد دیگرے تین ازواج مطہرات کی زبان سے سنی تو آپﷺ نے اسے شہد پینے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے آئندہ ہمیشہ کے لیے شہد نوشی کو اپنے لیے ممنوع قرار دے لیا۔ اگر یہ کسی عام انسان کا واقعہ ہوتا تو اسے کوئی اہمیت نہ دی جاتی لیکن چونکہ اس کا تعلق اس عظیم ہستی کے ساتھ تھا جس کی ہر بات اور ہر عمل شریعت کا قانون بن جاتا ہے۔ اس لیے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے جھنجھوڑنے کا انداز اختیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
''اے نبیﷺ تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟(کیااس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے''۔
انہی دنوں میں رسول اقدسﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ایک راز کی بات کہی اور فرمایا کہ اسے افشا نہ کرنا، لیکن انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا تذکرہ کردیا۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی نے وحی کے ذریعے آپﷺ کو آگاہ کردیا۔
9 ہجری تک سرزمین عرب کے بیشتر علاقے سلطنت مدینہ کے زیر نگین آچکے تھے۔ ہر علاقے سے مال و منال اور غلہ وافر مقدار میں مدینہ منورہ پہنچنے لگا۔ فراوانی و خوشحالی کے مناظر دیکھتے ہوئے ازواج مطہرات نے بھی گھریلو اخراجات میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ چونکہ ان میں سے بیشتر بڑے بڑے سرداران قبائل کی شہزادیاں تھیں جنہوں نے اپنے گھروں میں مال و دولت کی فراوانی دیکھی تھی اور نازونعم سے پرورش پائی تھی، اس لیے انہوں نے دولت کی بہتات دیکھ کر اپنے مصارف میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ اس صورتِ حال کا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پتا چلا تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ انہوں نے اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کو سمجھایا کہ جو کچھ چاہیے مجھ سے کہو، رسول اقدسﷺ سے مصارف کا تقاضہ نہ کرنا۔ دیگر ازواج مطہرات کو بھی اس مطالبے سے باز رہنے کی تلقین کی۔ اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے عمر رضی اللہ عنہا آپ ہر معاملے میں دخل دیتے ہی تھے، اب آپ نے رسول اقدسﷺ کی بیویوں کے معاملے میں بھی دخل دینا شروع کردیا ہے۔ آپ یہ جواب سن کر خاموش ہوگئے۔
انہی دنوں رسول اللہﷺ گھوڑے سے گر کر قدرے زخمی بھی ہوئے تھے۔ آپﷺ نے اس ساری صورت حال کو پیشِنظر رکھتے ہوئے مکمل ایک ماہ تک ازواج مطہرات سے بالکل الگ تھلگ رہنے کا ارادہ کرلیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے ساتھ بالاخانہ میں تشریف لے گئے۔ مدینہ میں آباد منافقوں نے مشہور کردیا کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہہ اس صورت حال سے بڑے پریشان تھے۔ لیکن حالِ دل پوچھنے کی کسی میں جرأت بھی نہ تھی۔ حضرب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک روز اجازت لے کرآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یارسول اللہﷺ کیا آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں۔ یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے۔ عرض کی یہ بشارت میں عام مسلمانوں کو بھی سنادوں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں اجازت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسرت بھرے جذباتی انداز میں تمام لوگوں کو یہ اطلاع دی، جس سے مدینہ میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ انتیس روز بعد جب آپﷺ نیچے تشریف لائے تو پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آئے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا آج تو انتیسواں دن ہے، آپ نے مہینے کا اراد کیا تھا۔ آپﷺ نے بھی مسکراتے ہوئے فرمایا عائشہ مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اباجان سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ زندگی بھر ذاتی مصارف میں اضافے کا مطالبہ رسول اللہﷺ سے نہیں کریں گی اور پھر اس وعدے کو پوری زندگی نبھایا۔
ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اقدسﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ایک مرتبہ طلاق دے دی، پھر آپ نے رجوع کرلیا۔ مستدرک حاکم میں ابوبکر بن ابی خثیمہ نے حضرت انس بن مالک کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ آپﷺ کے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے فرمایا: اے محمدﷺ آپ نے حفصہ کو طلاق دے دی ہے، وہ تو بڑی روزے دار اور عبادت گزار ہے اور وہ جنت میں آپ کی بیوی ہوگی۔ آپ نے یہ بات سنتے ہی رجوع کرلیا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ کیا ہوگیا؟ غم میں ڈوب کر خودکلامی کے انداز میں کہنے لگے۔ ہائے افسوس اسلام کے لیے میری خدمات اور میری بیٹی کا یہ انجام،میرے اللہ یہ میرے ساتھ کیا ہوگیا؟ اگلی ہی صبح جبریل علیہ السلام رسولِ اقدسﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یارسول اللہﷺ اللہ نے آپ کے نام یہ حکم دیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا لحاظ رکھتے ہوئے حفصہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کرلیں۔ رسول اقدسﷺ نے اللہ تعالٰی کا حکم سنتے ہی رجوع کرلیا۔(سبحانہ اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم) اس طرح اللہ تعالٰی اپنے ماننے والوں کی مدد کیا کرتے ہیں۔ اُم المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے 41 ہجری کو 59 سال کی عمر میں داعئی اجل کو لبیک کہا۔ وفات کے وقت بھی ان کا روزہ تھا

Posted on Mar 22, 2011