23 اکتوبر 2015
وقت اشاعت: 9:0
دہلی میں ادیبوں کااحتجاجی مارچ، منوررانا مودی کا جوتااٹھانے کو تیار
جیو نیوز - کراچی......فاضل جمیلی......بھارتی دارالحکومت نیودہلی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملک بھر سے آئے ہوئے مختلف زبانوں کے ادیبوں نے ساہتیہ اکیڈمی کے خلاف احتجاجی مارچ کیا ہے۔واضح رہے کہ اکیڈمی کا انتظامی بورڈ آج اپنے اجلاس میں ادیبوں کی جانب سے اپنے ایوارڈز واپس کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال پرغورکرنے والا ہے۔
خاموش احتجاجی مارچ میں ادیبوں نے اپنے بازئوں اور منہ پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیںاور اپنے مطالبات کے حق میں بڑے بڑے بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ احتجاجی مارچ کے شرکاء صفدرہاشمی مارگ کے علاقے میں سری رام سینٹر پر جمع ہوئے اور مارچ کرتے ہوئے ساہتیہ اکیڈمی کی عمارت تک پہنچے۔
ادیبوں نے اکیڈمی کے چیئرمین وشواناتھ پرساد ٹیواری کو اپنے مطالبات کے حق میں ایک قرارداد بھی دی جس میں کہا گیا ہے کہ اکیڈمی اپنے اجلاس میں ادیبوں کے آزادی ء اظہار کے حق کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔اور دہلی میں پروفیسر ایم ایم کلبرگی کے قتل کے خلاف تعزیتی اجلاس منعقد کیا جائے۔
وشواناتھ پرساد نے ادیبوں کو یقین دلایا کہ اکیڈمی کے اجلاس میں ان کے مطالبات پر غور کیا جائے گا۔تاہم احتجاج کرنے والے ادیبوں کا کہنا تھا کہ وہ وشواناتھ کے حالیہ بیانات سے خوش نہیں ہیں جن میں انہوں نے ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں پر مالی فوائد حاصل کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اکیڈمی کے چیئرمین نے اپنے بیانات پر معافی نہ مانگی اور پروفیسر ایم ایم کلبرگی کے لیے تعزیتی اجلاس منعقد نہ کیا گیا تو ہ وشواناتھ ٹیواری کے استعفےٰ کے مطالبہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔احتجاجی مارچ میں معروف ادیب کیکی این داروالا،گیتا ہری ہرن، انورادھا کپور،شیکھر جوشی اور جاویدعلی بھی شریک تھے۔
ایک طرف ادیبوں کا احتجاجی مارچ ہورہا تھا تو دوسری طرف اپنا اکیڈمی ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کرنے والے اردو شاعرمنوررانا وزیراعظم مودی کی قربت حاصل کرنےکی کوشش کر رہے تھے۔اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مودی ان کے بڑے بھائی کی طرح ہیں ، اگر وہ انہیں بلائیں گے توانہیں ان کے جوتے اٹھانے میں خوشی محسوس ہو گی۔
منوررانا نے پہلے ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ جن ادیبوں کو اپنی تخلیق پر اعتماد نہیں رہا وہ ایوارڈز واپس کر رہے ہیں لیکن اچانک انہوں نے اپنا موقف تبدیل کرتے اپنا ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کردیا۔منوررانا کا کہنا ہے کہ انہیں کال آگئی ہے اوروہ وزیراعظم مودی سے ملنے ضرور جائیں گے۔
منوررانا کے اس طرزِعمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک ادیب نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’اگر آپ ایک چوہے کو بسکٹ کا ٹکڑا دیں تو وہ اس سے زیادہ کی امید لگا بیٹھتا ہے‘‘۔ یہی بات منور رانا پر صادق آتی ہے۔ہم اس موقع پر ان پر کھل کر تنقید اس لیے نہیں کر رہے کہ ادیبوں میں دھڑے بندی کا تاثر پیدا ہو گا۔