5 جون 2011
وقت اشاعت: 6:16
افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا، پہلے مرحلے کا اعلان آئندہ ہفتے متوقع
وائس آف امریکہ - توقع ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس جلد ہی وائٹ ہاؤس کے سامنے فوجوں کی واپسی کی مختلف تجاویز رکھیں گے۔
دسمبر 2009 میں، صدر براک اوباما نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیں اس سال جولائی میں واپس آنا شروع ہو جائیں گی۔ انھوں نے بغاوت کو کچلنے کے لیے مزید تیس ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس طرح افغانستان میں امریکی فوجیوں کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
فوجی عہدے دار کہتے ہیں کہ فوجوں میں تیزی سے اضافے سے ان علاقوں کو جہاں طالبان نے اپنے قدم جما لیے تھے، محفوظ بنانے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے ۔ لیکن پینٹا گان کے عہدے دار کہتے ہیں کہ حالات پھر پرانی ڈگر پر واپس جا سکتےہیں۔
انھوں نے انتباہ کیا ہے کہ فوجوں کی واپسی بتدریج ہونی چاہیئے اور اس میں سکیورٹی کی حالت کو مد نظر رکھا جانا چاہیئے۔ لیفٹیننٹ جنرل David Rodriguez افغانستان میں امریکی فوجوں کے ڈپٹی کمانڈر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’مجھے تشویش یہ ہے کہ فوجوں کی واپسی اس طرح نہ ہو کہ اس میں افغان فوج کی اپنی صلاحیتوں کو مد نظر نہ رکھا جائے اور نہ اتنی تیز ہو کہ فوج اور پولیس سے غلطیاں ہونے لگیں یا عارضی طور سے بعض علاقوں میں خلا پیدا ہو جائے ۔ اگر ایسا ہوا، تو طالبان ایک بار پھر اپنے قدم مضبوط کر سکتے ہیں کیوں کہ آبادی پہلے ہی خوفزدہ ہے ۔‘‘
جنرل Rodriguez کہتے ہیں کہ پورے ملک میں دو لاکھ چوراسی ہزار سے زیادہ افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت دی جا چکی ہے۔ 2009 کے مقابلے میں یہ تعداد پچاس فیصد زیادہ ہے۔ افغان فورسز کی تربیت تبدیلی کے عمل کے لیئے انتہائی اہم ہے ۔ اگلے چند ہفتوں میں سات افغان شہروں اور صوبوں کا کنٹرول غیر ملکی فوجوں سے مقامی فورسز کو منتقل کر دیا جائے گا۔ جنرل Rodriguez کہتے ہیں کہ ’’ہمیں اپنے افغان شراکت داروں پر زور ڈالنا چاہیئے کہ وہ آگے بڑھیں اور حالات کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ ہمیں اس سلسلے میں ان پر زیادہ اعتماد کرنا چاہیئے،
بین الاقوامی فورسز افغان فورسز کو تربیت دے رہی ہیں، لیکن اس دوران تشدد ختم نہیں ہوا ہے ۔ طالبان نے حملوں کی ایک نئی مہم شروع کی ہے جس مقصد عام افغان باشندوں کو خوفزہ کرنا اور ان کے اس اعتماد کو برباد کرنا ہے کہ ان کی حکومت ان کی حفاظت کر سکتی ہے ۔‘‘
امریکہ اور نیٹو کو امید ہے کہ 2014 تک افغانستان سے تمام بین الاقوامی لڑاکا فوجی واپس آ جائیں گے اور پورے ملک کی سیکورٹی افغان فورسز کو منتقل ہو جائے گی۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اتحادی ممالک نے 2014 کے بعد کے علاقائی اہداف کے بارے میں کھل کر بات نہیں کی ہے جن کا تعلق افغانستان کے ہمسایہ ملکوں، خاص طور سے پاکستان سے ہے ۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈیوڈ برنو افغانستان میں خدمات انجام دے چکےہیں اور آج کل سنٹر فار اے نیو امریکن سکیورٹی میں سینیئر فیلو ہیں۔ وہ کہتےہیں’’دنیا کے اس خطے میں، ضروری ہے کہ امریکہ طویل عرصے تک محدود پیمانے پر اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے۔اس طرح سب کو یہ واضح پیغام مل جائے گا کہ ہم اپنے عزم پر قائم رہیں گے۔‘‘
ایک اور بات جو وائٹ ہاؤس کے لیے اہم ہے وہ اس افغان جنگ کی لاگت ہے ، جو آج کل 100 ارب ڈالر سالانہ ہے ۔ امریکی معیشت کی خراب حالت، اور القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے پیش نظر ، امریکی کانگریس کے بعض ارکان مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغانستان سے فوجوں کی واپسی کی رفتار اور زیادہ تیز ہو نی چاہیئے۔ تجزیہ کار ڈیوڈ برنوکہتے ہیں’’میر ے خیال میں ہمیں اگلے ساڑھے تین برسوں میں کوئی ایسا طریقہ معلوم کرنا ہوگا کہ ہم اپنا امداد کا بہت بڑا پروگرام ختم کریں اور اس کے ساتھ ہی ایسا انتظام کریں کہ افغان معیشت تباہ نہ ہو جائے۔ ہمیں کوئی ایسی چیز ڈیزائن کرنی پڑے گے جس کے سہارے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ افغان خود اپنے ملک کو چلا سکتے ہیں۔‘‘
امریکہ کے فوجی عہدے داروں کو توقع ہے کہ افغان لیڈر اگست میں یہ طے کریں گے کہ ملک کے مزید کتنے علاقے اتحادی افواج کے کنٹرول سے نکال کر افغان سیکورٹی کے کنٹرول میں دیے جا سکتے ہیں۔