برطانیہ کے سائنسدان اُس وقت حیران رہ گئے جب اُن کو حیاتیات میں جدید ترین ریاضی کے حساب کتاب کے شواہد ملے۔
برطانوی سائنسدانوں نے ایک پودے اربی ڈوپسس کا مطالعہ کیا جو کہ اس نوعیت کے تجربات کے لیے بڑا موزوں مانا جاتا ہے۔
سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ پودوں میں ریاضی کے حساب کتاب کرنے کی صلاحیت قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے جو اُس کو رات کے وقت خوراک ذخیرہ کرنے مدد دیتی ہے۔
جان انز سینٹر کی ٹیم نے ای لائف جرنل کو بتایا کہ پتے میں رات کے اوقات میں نشاستے کی استعمال ہونے والی مقدار کا شمار مختلف خانوں میں ریاضی کے ماڈلز کی مدد سے لگایا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق پرندے بھی ایک جگہ سے دوسرے مقام پر ہجرت کے دوران اسی عمل کے ذریعے اپنے جسم میں خوراک ذخیرہ کرتے ہیں۔
اس تحقیق میں حیران کُن بات یہ ہے کہ جب رات میں پودے چینی اور نشاستے کو کاربن ڈائی آکسائڈ میں تبدیل کرنے کے لیے سورج کی روشنی کا استعمال نہیں کر سکتے تو وہ اپنے اندر نشاستے کے ذخائر کو طلوع آفتاب تک چلانے کے لیے حساب کتاب کرکے محفوظ کرتے ہیں۔
جان انز سینٹر کے سائنسدانوں کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پودے کو نشاستے کی قابل استعمال مقدار کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری حساب کتاب کرنا پرتا ہے۔
اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر ایلیسن سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ پودے یہ ریاضی کیمیائی انداز میں کرتے ہیں جو ہم سائنسدانوں کے لیے حیران کُن بات ہے۔
’یہ دسویں جماعت کی ریاضی سے کم درجے کی ریاضی ہے لیکن یہ پودے اتنی ہی سہی ریاضی کا حساب کتاب ضرور کرتے ہیں۔ رات میں پودے کے پتے کے اندر موجود نظام نشاستے کی ذخیرہ کی گئی مقدار ناپتا ہے اور وقت کے متعلق معلومات ایک گھڑی فراہم کرتی ہے جو انسانی جسم کے اندر موجود گھڑی کی مانند ہوتی ہے۔‘
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ پودے میں موجود نشاستے کے ذخائر کو ایس کے ذریعے واضح کیا جائے اور وقت کو ٹی سے۔ ’اس کے بعد ایس کو ٹی سے یعنی ذخائر کو وقت سے تقسیم کیا جائے تو پودے کی توانائی بحال رکھنے کا بنیادی اصول واضح ہو جاتا ہے۔‘
جان انز سینٹر کے پروفیسر مارٹن ہاورڈ کہتے ہیں کہ یہ حیاتیات میں ریاضی کے حساب کتاب کا پہلا ٹھوس ثبوت ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پرندے ہجرت کے دوران یا پھر انڈے دیتے ہوئے جب اُن کو خوراک کی کمی کا سامنا ہوتا ہے تو وہ بھی اپنے جسموں میں چربی کی مقدار کو محفوظ بنانے کےلیے کسی ایسے ہی نظام کا سہارا لیتے ہیں۔
تاہم اس تحقیق پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کوئن میری یونیورسٹی آف لندن کے ڈاکٹر رچرڈ بگز کا کہنا ہے کہ یہ پودوں کی ذہانت کی دلیل نہیں ہے۔
’اس تحقیق سے صرف یہ معلوم ہوا ہے کہ پودوں میں ایسا خود کار نظام موجود ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ رات کے وقت کتنی جلدی کاربوہائڈریٹس کو جلایا جائے تاکہ وہ صبح تک چل سکیں۔ پودے رضاکارانہ طور پر ریاضی کے حساب کتاب نہیں کر سکتے جیسے ہم انسان کرتے ہیں۔‘
پودے خوراک ذخیرہ کرنے کے لیے حساب کتاب کرتے ہیں
Posted on Jun 24, 2013
سماجی رابطہ