8 ستمبر 2011
وقت اشاعت: 17:35
کراچی:ازخود نوٹس کیس، آئی ایس آئی کی سپریم کورٹ کو بریفنگ
جنگ نیوز -
کراچی . . . . . کراچی کی صورتحال پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے کہا ہے ملک میں جب بھی مارشل لاء لگایا گیا امن و امان کی خراب صورتحال کو بنیادبنایاگیا۔سپریم کورٹ نے31 جولائی 2009 کے فیصلے سے مارشل لاء کا راستہ بند کیااب امن و امان حکومت کوبہتر بناناہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے روبرو بلوچ اتحادتحریک، متحدہ قومی موومنٹ اور ملیر بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دلائل مکمل کئے گئے جبکہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسیوسی ایشن کے صدر کل اپنے دلائل مکمل کریں گے۔ایم کیو ایم کے وکیل ڈاکٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ دستور کے آرٹیکل184کے تحت سپریم کورٹ اس کیس میں صرف گائیڈ لائن دے سکتی ہے، نہ تو شہادتیں ریکارڈ کرسکتی اور نہ ہی کسی کو سزا دے سکتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ جولائی اور اگست میں ہونیوالے دہشت گردی کے تمام واقعات کی تحقیقات کیلئے غیرجانبدار کمیشن بنایا جائے جو ہائی کورٹ کے جج کی نگرانی میں تحقیقات کرے اس کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے جو بھی ذمہ دار ہواسے سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ہر قسم کے تشدد اور لاقانونیت کیخلاف ہے۔اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی افراد سے آزاد اور غیر جانبدار تحقیقاتی ایجنسی کیسے بنائی جائے جب کہ دو دنوں میں چار لاشیں مل چکی ہیں اور الزامات اور جوابی الزمات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک حکومت کی سپورٹ نہ ہو تو تحقیقاتی ایجنسی غیر جانبدارنہ تفتیش نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کو خلا میں کام نہیں کرناعملی باتیں کریں یہ نا کہیں کہ کوا یہ لے گیا کوا وہ لے گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ بھارت میں واجپائی حکومت ایک ووٹ سے ختم ہوگئی لیکن انہوں نے سمجھوتہ نہیں کیا اوریہاں سیاستدان اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے عوام سے کھیلتے ہیں۔جسٹس غلام ربانی نے ریمارکس دیئے کہ ایم کیوایم تو ہر دورحکومت میں حتی کہ مارشل لا کے ساتھ بھی تھی توڈاکٹر فروغ نسیم نے بتایاکہ اقتدار میں ہونے کے باوجود ایم کیو ایم بے اختیار تھی جس پرجسٹس سرمد جلال عثمانی نے ڈاکٹر فروغ نسیم سے کہا کہ ایم کیو ایم نے ہلاک ہونے والوں میں صرف اردو بولنے والوں کے نام دیئے ہیں کیا پنجابی، پختون، بلوچ انسان نہیں ہوتے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ مارشل لا لگانے والا پہلے کہتا ہے میرے عزیز ہم وطنوں اور پھر انکی ایسی کی تیسی کردیتاہے۔جسٹس عثمانی نے کہاکہ متحدہ کے پاس صوبائی اسمبلی کی34سیٹیں ہیں یہ چاہے تو دہشت گردوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ملیربار کے صدراشرف سموں نے کہا کہ کراچی میں تھانے بکتے ہیں۔دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو پولیس خود تھانوں میں چھپ جاتی ہے۔بلوچ اتحاد تحریک کے وکیل جمیل ورک نے ٹارچر سیل سے بچ کر آنے والے16افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی اور کہا یہ ان 18 افراد سے مختلف ہیں جنہیں پولیس نے بازیاب کرایا یہ لوگ پولیس کے پاس گئے لیکن ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے پولیس حکام کو حکم دیا کہ ا س فہرست سمیت جتنے لوگ شہر سے اغوا ہوئے ہیں اس کی تفتیش کرکے معلوم کریں انہیں کس نے اغوا کیا۔چیف جسٹس نے یہ بھی استفسارکیا کہ جن44افراد کی لاشوں کی جمیل ورک نے لسٹ دی ہے کیا ان کے بارے میں کوئی تفتیش ہوئی۔.پولیس حکام نے کہا کہ لاش ملنے پر مشکل ہوتا ہے کہ کس سے تفتیش کی جائے۔سپریم کورٹ بار کے صدر انور منصور خان نے کہاکہ امن وامان قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔سماعت کے بعد آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر محمد شفیق نے کراچی کی صورتحال پر چیمبر میں ججوں کو بریفنگ دی جس میں اٹارنی جنرل سمیت کسی وکیل کو شریک نہیں کیا گیا۔