5 مارچ 2011
وقت اشاعت: 20:45
30 فیصد سے زائد پارلے منٹرین نام نہاد نمائندے ہیں ،جسٹس جواد خواجہ
جنگ نیوز -
اسلام آباد . . . سپریم کورٹ میں 18ویں ترمیم کے مقدمہ کی سماعت آئیندہ ہفتہ تک ملتوی کردی ہے ، چیف جسٹس جسٹس افتخارمحمدچودھری نے ریمارکس دئے ہیں کہ جو شخص پارلے منٹرین بننے کا اہل نہ ہو ، وہ پارٹی سربراہ بن کر کیسے ، رکن پارلے منٹ کو نااہل قرار دلوا سکتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق نیا طریقہ انتخاب بادی النظر میں ، آئین کے آرٹیکل 26 سے متصادم ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی بنچ 18ویں آئینی ترمیم کے مقدمہ کی سماعت کی،، اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے آج بھی دلائل جاری رکھے۔ چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ کیارکن پارلے منٹ بننے سے نااہل شخص ، کسی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے توان کاکہناتھاکہ کہ ہاں ایسا ہوسکتا ہے۔ جسٹس شاکراللہ جان نے پوچھا کہ اگرکوئی غیرملکی شخص رکن اسمبلی نہیں بن سکتا تو کیا وہ پارٹی سربراہ بن کر اس کا اختیار بھی استعمال کرسکتا ہے، اس پراٹارنی جنرل نے کہاکہ جی ہاں ،،، جسٹس تصدق جیلانی نے کہا کہ پارٹی سربراہ کے اختیار والی یہ آئینی ترمیم تو انہیں آمر والے اختیارات دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایسا شخص جو پارلے منٹیرین نہ بن سکے وہ منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کاکیسے مجازہوسکتاہے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق آئینی ترمیم پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا بالواسطہ انتخابات، غیر جمہوری نہیں ہیں ،، جسٹس آصف کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اس طریقہ سے آنے والی غیرمنتخب ، خاتون پارلے منٹرین ، کیا وزیراعظم بن سکتی ہے ، جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئے کہ اس طریقہ کار سے 30 فیصد سے زائد پارلے منٹرین ، نام نہاد نمائندے ہیں ،انہوں نے کہا کہ ووٹر کو چوائس ہونی چاہیئے کہ عام الیکشن میں ووٹ کسی ایک پارٹی کو دے اور مخصوص نشست کے لئے دوسری جماعت کو ، جسٹس جواد نے کہا کہ ریزرو سیٹوں پر الیکشن ، خفیہ بیلٹ سے ہونا چاہیئے تھا ، عدالت نے الیکشن 2008 کی مخصوص نشستوں سے متعلق انتخابی رکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔