جو گزر گیا سو گزر گیا
نا گلہ کیا نا خفا ہوئے
یونہی راستے میں جدا ہوئے
نا وہ بیوفا نا میں بیوفا
جو گزر گیا سو گزر گیا
وہ غزل کی اک کتاب تھا
وہ گلوں میں اک گلاب تھا
ذرا دیر کا کوئی خواب تھا
جو گزر گیا سو گزر گیا
وہ اداس دھوپ سیک کر
کہیں وادیوں میں اُتَر گیا
اسے اب نا دے میرے دل صدا
جو گزر گیا سو گزر گیا
یہ سفر بھی کتنا طویل ہے
یہاں وقت کتنا قلیل ہے
کہاں لوٹ کر کوئی آئے گا
جو گزر گیا سو گزر گیا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ