خلاصہ ہے یہ میرے حالات کا

خلاصہ ہے یہ میرے حالات کا

خلاصہ ہے یہ میرے حالات کا

کے اپنا سب سفر ہے رات کا

تپش کتنی ہے ماں کے آنسوؤں میں

یہ پانی کون سی برسات کا ہے


الہی موت نا آئے میری تباہ حالی میں

یہ نام ہوگا کے غم روزگار سہہ نا سکا


گرے گا ایک پتہ بھی تو چیخ نکلے گی

یہ ڈال ڈال کا رشتہ بہت پرانا ہے


خوشی سے اپنی رسوائی گوارہ ہو نہیں سکتی

گریبان پڑتا ہے تنگ جب دیوانہ ہوتا ہے


میں اور آپ سے التجائے کرم آپ سے کروں

یہ بھیک دیجیئے اسے جس کا خدا نا ہو


بےخودی شوق کی اور عرض تمنا میری

نہیں معلوم کے منه سے میرے کیا کیا نکلا


جذبہ الفت کے مزے کچھ کام تو آنے لگے

پونچھ کر دامن سے آنسو مجھ کو سمجھانے لگے

Posted on Feb 16, 2011