ملتی ہے خو یار

ملتی ہے خو یار

ملتی ہے خو یار سے نار التحاب میں
کافر ہوں گر نا ملتی ہو راحت عذاب میں

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہاں خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

تا پھر نا انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عھد کر گئے آئے جو خواب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

مجھ تک کب انکی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نا دیا ہو شراب میں

جو منکر وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بدگمان ہوں دوست سے دشمن کے باب میں

میں مضطرب ہوں وصل میں خوف رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں

ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرف نقاب میں

وہ نالہ دل میں خاص کے برابر جگہ نا پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں

وہ سحر مدہ طلبی میں نا کام آئے
جس سحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں

غالب چھوٹی شراب ، پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب مہتاب میں

Posted on Feb 16, 2011