مجھے اور کہیں لے چل سانول

مجھے اور کہیں لے چل سانول

مجھے اور کہیں لے چل سانول

جہاں رات کبھی بھی سوئی نا ہو
جہاں صبح کسی پہ روئی نا ہو
جہاں حجر نے وحشت بوئی نا ہو
جہاں کوئی کسی کا کوئی نا ہو

مجھے اور کہیں لے چل سانول

جہاں شہر ہوں سارے ویرانے
جہاں لوگ سبھی ہوں بیگانے
جہاں سب کے سب ہوں دیوانے
جہاں کوئی ہمیں نا پہچانے

مجھے اور کہیں لے چل سانول

جہاں نفرت دل میں بس نا سکے
جہاں کوئی کسی کو دس نا سکے
جہاں کوئی کسی پہ ہنس نا سکے
جہاں کوئی بھی گنجل کس نا سکے !

مجھے اور کہیں لے چل سانول

جہاں درد کسی کو راس نا ہو
جہاں کوئی بھی اداس نا ہو
جہاں ظلمت کی بو بس نا ہو
جہاں تو بھی ذیادہ پاس نا ہو

مجھے اور کہیں لے چل سانول

Posted on Feb 16, 2011