اس کی حسرت ہے
اسکی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نا سکوں ،
ڈھونڈنے اسکو چلا ہوں جسے پا بھی نا سکوں
ڈال کر خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا ،
کچھ یہ یاد نہیں میری کے مٹا بھی نا سکوں
ضبط کمبخت نے اور آ کے گلا گھونٹا ہے ،
کے اسے حال سناؤ تو سنا بھی نا سکوں
اسکے پہلو میں جو لیجا کے سلا دوں دل کو ،
نیند ایسی اسے آئے کے جگا بھی نا سکوں
مہربان ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت ،
میں گیا وقت نہیں ہوں کے پھر آ بھی نا سکوں
ضعف میں طعنہ - ای - آغیار کا شکوہ کیا ہے ؟
بات کچھ سر تو نہیں ہے کے اتھا بھی نا سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ ،
کیا قسم ہے تیرے ملنے کی کے کھا بھی نا سکوں "
نقش پا دیکھ لوں لاکھ کروں گا سجدے
سر میرا عرش نہیں ہے کے جھکا بھی نا سکوں
بے - وفا لکھتے ہیں وہ اپنی قلم سے مجھ کو
یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نا سکوں
اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے میرے زانوں پر
اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نا سکوں
اس کی حسرت ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ