یہ کاروبار ہے
اب اتنا صبحوں کے تارے سے پیار کیا کرنا
گزر ہی جائے گی شب ، انتظار کیا کرنا
جو دوست ہی نا بنا اس سے دشمنی کیسے
دعائیں جس کو نا دیں اس پہ وار کیا کرنا
سلامت آ گئے تو ساحلوں سے مل لینگے
تہوں میں چلتے ہیں دریا کو پار کیا کرنا
ہر ایک فیصلہ بکتا ہے اب عدالت میں
یہ کاروبار ہے ، تو اب ، کاروبار کیا کرنا
کہاں تک آدمی خود اپنا رستہ روکے
جو صرف جبر ہو وہ اختیار کیا کرنا
گزر رہی ہے " مظفر " پہ جو گزرنے دو
تمام شہر کو اب سوگوار کیا کرنا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ