اب آنسو ’ آن کو آنکھوں میں سجانا ہوگا
چراغ بجھ گئے ، خود کو جلانا ہوگا . . .
نا سمجھنا کہ تم سے بچھڑ کے خوش ہیں
ہمیں لوگوں کی خاطر مسکرانا ہوگا . . .
پھر شام ڈھل گئی ، تم آئے نا آج بھی
دل کو آج پھر امیدوں سے بہلانا ہوگا . . .
وعدہ خلافی کر کے مسکراتے ہو آپ
دیکھنا ایک دن اے دوست تم کو پچھتانا ہوگا . . .
لہو سے اپنے ، کفن پہ تیرا نام لکھ جائوں گا
تھام کے ہاتھ میں پھول تم کو آنا ہوگا . . .
ابھی سے نا کیجیے تقاضے مصروفیت کے آپ
ابھی اُٹْھنا ہے جنازہ ، کاندھا تو دینا ہوگا . . .
مدتوں کیا ہے تیرا انتظار ، اے دوست !
عمر کٹ چکی اب تو جانا ہوگا ! ! !
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ