اپنی سوئی ہوئی دنیا کو جگا لوں تو چلوں
اپنے غم خانے میں ایک دھوم مچا لوں تو چلوں
اور ایک جام مے تلخ چرا لوں تو چلوں
ابھی چلتا ہوں ذرا خود کو سنبھال لوں تو چلوں
جانے کب پی تھی ابھی تک ہے مے غم کا خمار
دھندلا دھندلا سا نظر آتا ہے جہاں بیدار
آندھیاں چلتی ہیں دنیا ہوئی جاتی ہے غبار
آنکھ تو مل لوں ذرا ، ہوش میں آ لوں تو چلوں
وہ میرا ساحر ، وہ اعجاز کہاں ہے لانا
میری کھوئی ہوئی آواز کہاں ہے لانا
میرا ٹوٹا ہوا وہ ساز کہاں ہے لانا
ایک ذرا گیت بھی اس ساز پے گا لوں تو چلوں
میں تھکا ہارا تھا اتنے میں جو آئے بادل
کسی متوالے نے چپکے سے بڑھا دی بوتل
اُف وہ رنگین پر اسرار خیالوں کے محل
ایسے دو چار محل اور بنا لوں تو چلوں
میری آنکھوں میں ابھی تک ہے محبت کا غرور
میرے ہونٹوں کو ابھی تک ہے صداقت کا غرور
میرے ماتھے پے ابھی تک ہے شرافت کا غرور
ایسے وہموں سے بھی اب خود کو نکالوں تو چلوں
اپنی سوئی ہوئی دنیا کو جگا لوں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ