غم کے ماروں کے سسکنے کا سامان دیکھا ہے

غم کے ماروں کے سسکنے کا سامان دیکھا ہے ،
درد انسان کے پہلو میں جوان دیکھا ہے ،

درد اور دکھ تو ملے مل نا سکا دل کو سکون ،
دل کے ہر پردے میں ایک غم کو نہاں دیکھا ہے ،

پنہاں رہتی ہی نہیں آتَش الفت کی تپش ،
قیس و فرہاد کے جلنے کا دھواں دیکھا ہے ،

کس قدر ظلم ہے انسان کا انسان کے ساتھ ،
وقت کی آنکھ سے اشکوں کو رواں دیکھا ہے ،

کس کے آ جانے سے اے فضل تیرے ہوش اڑے ،
یاد تک بھی نا رہا کس کو کہاں دیکھا ہے . . . !

Posted on Jan 02, 2012