فصیل جان کے قیدی ہیں مگر یہ دھیان رکھا ہے
ہوا کے واسطے ہم نے در امکان رکھا ہے
سجا سکتے تھے یادوں کے کئی چہرے کئی پیکر
مگر کچھ سوچ کر ہم نے یہ گھر ویران رکھا ہے
ہمیں شوق اذیت ہے وگرنہ اس زمانے میں
تیری یادیں بھلانے کو بہت سامان رکھا ہے
تیری جھولی میں لا ڈالیں گئے قرضے اس محبت کے
کے ہم شوریدا سر ہیں ، کب کوئی احسان رکھا ہے
تمھیں یہ ماننا ہوگا کے ہم نے اپنے لب سی کر
سکوت شب کی مٹھی میں کوئی طوفان رکھا ہے
جو ہو یارو بحر صورت چراغوں کو جلانا ہے
ہوائیں کتنی برہم ہیں ، یہ ہم نے جان رکھا ہے . . . . !
Posted on Oct 22, 2011
سماجی رابطہ