حصار ذات سے باہر نکال لاؤں اسے

حصار ذات سے باہر نکال لاؤں اسے

یہ آرزو ہے کے جب بھی گلے لگاؤں اسے
حصار ذات سے باہر نکال لاؤں اسے

وہ جل رہا تھا کڑی دھوپ کی تمازت میں
ملا جو اب تو اوڑھا دونگا اپنی چھاؤں اسے

یہ عشق بھی ہے عجب امتحان عھد وفا
وہ آزمائے مجھے اور میں آزمائوں اسے

وہ شہر شہر چراغاں سہی مگر ایک دن
ہوائیں یاد دلائینگی اپنا گاؤں اسے

وہ اپنے خواب میں شاید مجھ ہی کو دیکھتا ہو
میں تشنہ لب سہی سوتے میں کیا جگاؤں اسے

Posted on Feb 16, 2011