آنکھوں میں جو خواب ہیں ان کو باتیں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
موسم جو سندیسہ لایا اس کو پڑھ تو لو
سُن تو لو وہ راز جو پیاسا ساحل کہتا ہے
آتی جاتی لہروں سے کیا پوچھ رہی ہے ریت؟
بادل کی دہلیز پہ تارے کیونکر بیٹھے ہیں
جھرنوں نے اس گیت کا مُکھڑا کیسے یاد کیا
جس کے ہر اک بول میں ہم تم باتیں کرتے ہیں
راہگزر کا، موسم کا، نہ بارش کا محتاج
وہ دریا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
کھا جاتا ہے ہر اِک شعلہ وقت کا آتش دان
بس اک نقشِ محبت ہے جو باقی رہتا ہے
آنکھوں میں جو خواب ہیں ان کو باتیں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
Posted on May 06, 2011
سماجی رابطہ