ہم بھی کتنے دیوانے نکلے
ہم بھی کتنے دیوانے نکلے
دیے سے اندھیرا مٹانے نکلے
غم دل پے ہمارے جو ہسا کرتے ہیں
ہم انکو ہی حال دل سنانے نکلے
کاغذی پھولوں پر آتی نہیں بہاریں
یہ جان کر بھی گلشن سجانے نکلے
دنیا میں بکتی ہیں جھوٹی کہانیاں
سچے افسانے سب ہم جلانے نکلے
لوگ بیٹھے ہیں بھر کے مٹھی میں نمک
جانے کیا سوچ کر ہم زخم دکھانے نکلے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ