ہم نے سوچ رکھا ہے
چاھے دل کی ہر خواہش
زندگی کے آنکھوں سے
اشک بن کے بہ جائیں
گھر کے ساری دیواریں
چھت سمیٹ گر جائے
اور بے - مقدر ہم
خود ہے کیوں نا دب جائے
تم سے کچھ نہیں کہنا
کیسے نیند تھی اپنی
کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
گھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں
کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سے
بچ کے بھی نکلنے کا
رستہ نہیں جانا !
جس طرح تم کو بھی
لا زوال لمحوں سے
واسطہ نہیں جانا !
ہم نے سوچ رکھا ہے
تم سے کچھ نہیں کہنا . . . !
Posted on Dec 15, 2011
سماجی رابطہ