ہم سے اس کی یادوں کے چراغ سنبھالے نا گئے ، 
 وقت کے تقاضے تھے جو ٹالے نا گئے 
 
 وہ بدل گیا اس سے رابطے نا رہے ، 
 میری باتوں سے مگر اس کے حوالے نا گئے 
 
 ایک انجان منزل کی جانب کیا تھا جو سفر ، 
 آج تک پاؤں سے اس مسافت کے چھالے نا گئے 
 
 میرے درد کا مسیحا رہتا ہے جس نگری میں ، 
 بس اس جانب میرے قافلے والے نا گئے 
 
 ہم سے پوچھو کتنا لطف ہے محبت کے آنْسُو رونے کا ، 
 اس سے مگر یہ انمول درد پالے نا گئے 
Posted on Jun 27, 2011







سماجی رابطہ