اک کرب ہے آنکھوں میں اک درد ہے جینے میں
کیا رمز ہے مرنے میں کیا راز ہے جینے میں
اک جذبہ ، مستانہ ، اک جڑ ’ ایٹ رندانہ
اس عشق او محبت میں اس زہر کے پینے میں
طوفان ہے جزبوں کا سیلاب ہے اشکوں کا
اک درد عجب سا ہے ساون کے مہینے میں
کچھ ٹوٹے ہوئے سپنے کچھ روٹھے ہوئے اپنے
بس اس کے سوا کیا ہے یادوں کے دفینے میں
خاموش بھی رہنا ہے دکھ درد بھی سہنا ہے
آداب ہیں سب شامل الفت کے قرینے میں
کیا لیں گے تمہیں پا کر ساحل کی طرف جا کر
طوفان اٹھایا ہے ہم نے تو سفینے میں
اے ساد اٹھا اس کو پہرے سے تخیل کے
اک سانپ ہے لفظوں کا معنی کے ہذینے میں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ