اتنے قریب ہوں تیرے رستہ نا وہم کو ملے

آنکھوں میں باقی رہ گئے ، اب تیرے خد و خال سے
لب پے ہیں کچھ سوال سے ، دل میں ہیں کچھ ملال سے

تو جو گیا تو یوں لگا ، تنہا ہوں کائنات میں
راتیں تھکی تھکی میری ، دن بھی میرے نڈھال سے

اتنے قریب ہوں تیرے ، رستہ نا وہم کو ملے
سن تیرے حصار میں ، جاگوں تیرے جمال سے

مجھ کو ہیں کام اور بھی ، کچھ تو کرو میرا خیال
آتے ہو جب خیال میں ، جاتے نہیں خیال سے

تجھ سی حسین غزل کوئی ، مجھ سا غزل سارا کوئی
دنیا میں ہو اگر کہیں ، واضح کرو مثال سے

اس سے گلہ اے دوستو ، اتنا سا ہے کے وہ مجھے
سمجھا نہیں ہے آج تک ، غافل ہے میرے حال سے . . . !

Posted on Dec 29, 2011