کہا نا پیار ہے تم سے

کہا نا پیار ہے تم سے
تو پھر کیوں ضد تمہاری ہے
کے جب بھی تم ملو مجھ سے
یہی اقرار ہو لب پر
مجھے تم سے محبت ہے
تمہیں معلوم ہے جانا ! !
محبت تو محبت ہے
یہ تو آنکھوں میں دکھتی ہے
حسین سے خواب کی صورت
یہ تو ایک پھول سا جذبہ ہے
کے جس میں رنگ اور خوشبو کا ساتھ ہوتا ہے
بہت انمول جذبہ ہے
یہ اظہار کی شدت کا طالب بھی نہیں ہوتا
بہت چپ چاپ جذبہ ہے
دبائے پاؤں ہی چلا آتا ہے
مگر جو نقش اس کے ہیں بہت ہی گہرے ہوتے ہیں
انہیں کہنا نہیں پڑتا
لب تو خاموش ہوتے ہے مگر اظہار ہے ہوتا
کبھی آنکھوں کی شوخی سے
کبھی باتوں کی خوشبو سے
یہ جذبہ چھپ نہیں پاتا
یہ سب باتیں ہے میری جانا ، تمہیں معلوم ہی تو ہے
تمہاری ہی کہی تو ہے
تو پھر کیوں ضد تمہاری ہے کے جب بھی
میں ملوں تم سے یہی اظہار ہو لب پر
مجھے تم سے محبت ہے
مگر تم جانتی ہو نا تمہاری بات کو جانا
نہیں میں ٹال سکتا ہوں
چالو اقرار کرتا ہوں
مجھے تم سے محبت ہے . . . !

Posted on May 26, 2012