خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نا جائے

خوشبو ہے وہ تو چھو کے بدن کو گزر نا جائے
جب تک میری وجود کے اندر اُتَر نا جائے

خود پھول نے بھی ہونٹ کیے اپنے
چوری تمام رنگ کی تتلی کے سر نا جائے

اس خوف سے وہ ساتھ نبھانے کے حق میں ہے
کھو کر مجھے یہ لڑکی کہیں دکھ سے مر نا جائے

پلکوں کو اس کی اپنے دوپٹے سے پونچھ دوں
کل کے سفر میں آج کی گرد سفر نا جائے

میں کس کے ہاتھ بھیجوں اسے آج کی دعا
قاصد ہوا ستارہ کوئی اس کے گھر نا جائے . . . !

Posted on Aug 01, 2012