کوئی ہم سخن بھی تو چاہیے

کوئی ہم سخن بھی تو چاہیے
کوئی ہم نوا بھی تو چاہیے
یہ سفر کتنا طویل ہے
کوئی راہنما بھی تو چاہیے

میرے ساتھ ہے میرا ہمسفر
وہ غموں سے ہے میرے بے خبر
جو الم کو میرے قلم کرے
کوئی دل ربا بھی تو چاہیے

یہ جہاں کتنا عجیب ہے
جو طبیب ہے وہ رقیب ہے
میں کروں تو کس سے گلہ کروں
مجھے مشورہ بھی تو چاہیے

میں غم الم کی مثال ہوں
تمہیں اے دوست یہ خبر نہیں
مجھے دیکھ لو ذرا غور سے
تمہیں آئینہ بھی تو چاہیے . . . . .

Posted on Feb 16, 2011