کیا امید کرے ہم ان سے جن کو وفا معلوم نہیں

کیا امید کرے ہم ان سے جن کو وفا معلوم نہیں
غم دینا معلوم ہے لیکن غم کے دوا معلوم نہیں
جن کی گلی میں عمر گنوا دی جیون بھر حیران رہے
پاس بھی آکے پاس نا آئے جان کے بھی انجان رہے
کون سی آخر کی تھی ہم نے ایسی خطا معلوم نہیں
اے میرے پاگل ارمانوں جھوٹے بندھن توڑ بھی دو
اب میری زخمی امیدوں دل کا دامن چھوڑ بھی دو
تم کو ابھی اس نگری میں جینے کے سزا معلوم نہیں . . . !

Posted on Aug 07, 2012