کیوں ہم پہ اٹھائیں سنگ ملامت کی فصیلیں

غزلوں میں تیرے عشق کا چرچا نا کریں گئے
ہم تجھ کو یوں سر عام رسواء نا کریں گئے

کیوں ہم پہ اٹھائیں سنگ ملامت کی فصیلیں
بہتر ہے تیرے شہر میں ہم آیا نا کریں گئے

یہ چاند یہ تارے یہ حسین رات کا عالم
منسوب تیرے نام سے کیا کیا نا کریں گئے

ویران ہوئے قصر تمنا کے دریچے
آباد کبھی پیار کی اب دنیا نا کریں گئے

ہر چیز کی بہتات میں نقصان بہت ہے
شدت سے کسی شخص کو چاہا نا کریں گئے ؟

Posted on Oct 28, 2011