مجھ سے کہتا ہے کبھی دل میں ملال آتے ہیں
کیسے کیسے میرے دشمن کو سوال آتے ہیں
یہ جو ہم روٹ ہیں چپ کر کبھی تنہائی میں
رفتہ رفتہ تجھے آنکھوں سے نکال آتے ہیں
ہم محبت پے بھی احسان کوئی رکھتے نہیں
نیکیاں کرتے ہیں دریاؤں میں ڈال آتے ہیں
بس اسی خوف سے سوئے نہیں اک مدت سے
ہجر ملتا ہے اگر خواب وصال آتے ہیں
پھول کھل جائیں تو اس شخص سے کم کم ملنا
ایسے موسم میں محبت پے زوال آتے ہیں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ