تمہاری آنکھ کہتی ہی حصار ذات سے نکلو
تمنا میری بن جاؤ شب برباد سے نکلو
کنارہ تھام لو دل کا بھلا دو ہر گلہ شکوہ
کبھی سچی ہنسی ہنس دو پرانی یاد سے نکلو
خیال یار اچھا ہے مگر جس نے وفا نا کی
پلٹ کر پھر صدا نا دو ڈر فریاد سے نکلو
نہیں کوئی محبت بھی ہجر رت بھی رقابت بھی
تو یہ دھڑکا سا کیا کہیے وہم کی گھات سے نکلو
سخن ور ہم سے کہتے ہیں سجا لو آنکھ میں کچھ خواب
دھڑکنا دل کو سکھلا دو اماوس رات سے نکلو
سر مقتل جو جاتے ہو نا ہو درماندگی کچھ بھی
زمانہ دیکھ تھم جائے کچھ اس اندازِ سے نکلو
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ