یہ کیا ستم ہے کے احساس درد بھی کم ہے
شب فراق ستاروں میں روشنی کم ہے
یہ کیسی موج کرم تھی نگاہ ساقی میں
کے اس کے بعد سے طوفان تشنگی کم ہے
قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے غم جستجو ، کبھی کم ہے
شعور عشق اب آیا ہے اپنی منزل پر
حضور حسن تمنا بےخودی کم ہے
تمام عمر تیرا انتظار کر لینگے
مگر یہ رنج رہے گا کے زندگی کم ہے
عروج ماہ کو انسان سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمت انسان سے آگاہی کم ہے
نا تھے بہار چمن ہم مگر یہ سنتے ہیں
ہمارے بعد گلوں میں شگفتگی کم ہے
نا ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شامیں
نئے چراغ جلاؤ کے روشنی کم ہے . . . . !
Posted on Nov 05, 2011
سماجی رابطہ