وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اب اس کا حال سنائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں
پھر سچا شعر سنائیں کیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے
تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اُتار لیا
پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں
یہ شامیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں
اس بات پر ہم شرمائیں کیا
اک آگ غم تنہائی کی
جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو
پھر دامن دل بچائیں کیا
ہم نغمہ سِرا کچھ غزلوں کے
ہم سورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبہ شوق سنائیں کیا
کوئی خواب نا ہو تو بتائیں کیا
Posted on May 04, 2011
سماجی رابطہ