وہ دل کا برا نا بیوفا تھا
بس مجھ سے یوں ہی بچھڑ گیا تھا
ہر سمت اس کا تذکرہ تھا
ہر دل میں وہ جیسے بس رہا تھا
میں اس کی انا کا آسرا تھی
وہ مجھ سے کبھی نا روٹھتا تھا
میں دھوپ کے بنا بھی جل رہی تھی
وہ سایہ ابر بن گیا تھا
ایک بار بچھڑ کے جب ملا تھا
وہ مجھ سے بچھڑ کے رُو پڑا تھا
کیا کچھ نا اس سے کہا گیا تھا
اس نے تو لبوں کو سی لیا تھا
وہ چاند کا ہمسفر تھا شاید
راتوں کو تمام جاگتا تھا
ہونٹوں میں گلاب کی نرم خوشبو
باتوں میں تو شہد گھولتا تھا
کہنے کو جدا تھا مجھ سے لیکن
وہ میری رگوں میں گونجتا تھا
اس نے جو کہا کیا وہ دل نے
انکار کا کس میں حوصلہ تھا
یوں دل میں تھی یاد اس کی جیسے
مسجد میں چراغ جل رہا تھا
مت پوچھ حجاب کے قرینے
وہ مجھ سے بھی کم ہی کھل سکا تھا
اس دن میرا دل بھی تھا پریشان
وہ بھی مرے دل سے خفا تھا
میں بھی تھی ڈری ہوئی سی لیکن
رنگ اس کا بھی کچھ اُڑا اُڑا تھا
ایک خوف سا ہجر کی رتوں کا
دونوں میں موحت ہو چلا تھا
ایک راہ سے میں بھی تھی گریزاں
ایک موڑ پہ وہ بھی رک گیا تھا
سوچا تو ٹھہر گے زمانے
دیکھا تو وہ دور جا چکا تھا
قدموں سے زمین سرک گئی تھی
سورج کا بھی رنگ سانولا تھا
چلتے ہوئے لوگ بھی رک گئے تھے
ٹھہرا ہوا شہر گھومتا تھا
سہمے ہوئے پیر کانپتے تھے
پتوں میں ہراس رینگتا تھا
رکھتی تھی میں جس میں خواب اپنے
وہ کانچ کا گھر چٹخ گیا تھا
ہم دونوں کا دکھ تھا ایک جیسا
احساس مگر جدا جدا تھا . . . . !
وہ مجھ سے بچھڑ کے رو پڑا تھا
Posted on May 05, 2011
سماجی رابطہ