یُوں دل میں تیری یاد اُتر آتی ہے جیسے
پردیس میں غمناک خبر آتی ہے جیسے
آتی ہے تیرے بعد خوشی بھی تو کچھ ایسے
ویران درختوں پہ سحر آتی ہے جیسے
لگتا ہے ابھی دل نے تعلق نہیں توڑا
یہ آنکھ تیرے نام پہ بھر آتی ہے جیسے
خود آپ ہوا روز اُٹھاتی ہے دعائیں
اور آپ کہیں دفن بھی کر آتی ہے جیسے
اِک قافلۂ ہجر گزرتا ہے نظر سے
اور روح تلک گردِ سفر آتی ہے جیسے
جلتا ہے کوئی شہر کبھی دامنِ دل میں
سانسوں میں کبھی راکھ اُتر آتی ہے جیسے
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ