اے یار اکثر تیرا انتظار رہتا ہے

اے یار اکثر تیرا انتظار رہتا ہے

اے یار اکثر تیرا انتظار رہتا ہے
اس دل میں بس فقط تیرے پیار رہتا ہے

آتا ہے کون لوٹ کر وہ جو جاتا ہے یہاں سے
پھر بھی انکا انتظار رہتا ہے

تم ہی ہو بسے دل میں جگر میں اور نظر میں
ہر پل ان آنکھوں کو بس تیرا انتظار رہتا ہے

آ جائے لوٹ کے وہ پردیس کا باسی
ہر پل دعا میں ماں کے بس یہ ہی ذکر رہتا ہے

جس سمت میں دیکھوں تیرے ہی نظارے ہیں
اے یار تو کچھ ایسے ان آنکھوں میں رہتا ہے

ہر ظلم ہے جاری اَزَل سے انہی پر
مظلوم کو ہی ظالم پھر زمانہ یہ کہتا ہے

آ جائے قرین دل کے ایسا تو نہیں کوئی
اس اجڑے مکان میں اب کوئی نہیں رہتا ہے

مانو کے حقیقت ہے جانو کے سچ ہے یہ
اس دور میں نفیس کون کب کس کے لیے جیتا ہے

Posted on Feb 16, 2011