چلو اٹھو کے اب انداز زمانہ ہے بدل گیا ہے
ڈھونڈیں کوئی اور ، کے اب یہ آشیانہ ہے بدل گیا ہے
نا ہے رہی وہ تہذیب ، نا ہے رہا وہ تمدن
نا ہے رہے وہ کردار ، کے یہ فسانہ ہے بدل گیا ہے
کسی کو بھی نہیں پرواہ یہاں کسی کی
اپنے بھی بدل گئے اور بیگانہ بھی بدل گیا ہے
گلے شکواے لڑائی جھگڑے ہیں چار سو
محبت بھی بدل گئی ہے ، محبت کا جتانا بھی بدل گیا ہے
مگرمچھ کے آنسو ہیں رواں ہر آنکھ میں
آنکھیں بھی بدل گئی ہیں ، آنْسُو بہانہ بھی بدل گیا ہے
دولت ہے سے ہونے لگا ہے پیار یہاں
دل بھی بدل گئے ، دل کا لگانا بھی بدل گیا ہے
مطلب ہو تو آ کر ملتے ہیں لوگ
چہرے بھی بدل گئے ہیں ، مسکرانا بھی بدل گیا ہے . . . . !
Posted on Jul 05, 2012
سماجی رابطہ