جی دیکھا ہے، مر دیکھا ہے
ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے
برگِ آوارہ کی صورت
رنگِ خشک و تر دیکھا ہے
ٹھنڈی آہیں بھرنے والو
ٹھنڈی آہیں بھر دیکھا ہے
تیری زلفوں کا افسانہ
رات کے ہونٹوں پر دیکھا ہے
اپنے دیوانوں کا عالم
تم نے کب آ کر دیکھا ہے؟
انجُم کی خاموش فضا میں
میں نے تمہیں اکثر دیکھا ہے
ہم نے اس بستی میں جالب
جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے
Posted on Jun 04, 2011
سماجی رابطہ