ابھی نثر نثر ہے زندگی

ابھی نثر نثر ہے زندگی میری زندگی کو غزل کرو
کبھی آرزؤں کے جھیل میں میری خواہشوں کو کنول کرو


کبھی خوف حجر طویل کا کبھی شوق ہے تیری دید کا
دل مضطرب کے یہ مسئلے ہیں جو آؤ تو انہیں حل کرو


یہ جو سر بریدہ وجود ہے اسے اپنے ہونٹوں کا لمس دو
مجھے زندگی کی طلب نہیں میرے نام بس کوئی پل کرو


نا میں خوش گمان ہوں وصال سے نا تو بدگمان ہو فراق سے
تیرے دل کا جو بھی ہے فیصلہ میری جان اسی پہ عمل کرو


میرے ساتھ چلنا ہے گر چلو میرے دل پہ شاہی تمہاری ہے
مجھے چھوڑنا ہے تو چھوڑ دو جو بھی فیصلہ ہے اَٹَل کرو . . . . !

Posted on May 12, 2012