شب کو پہلو میں جو وہ ماہِ سیہ پوش آیا
ہوش کو اتنی خبر ہے کہ نہ پھر ہوش آیا
ان کا زانو تھا مرا سر مرا دل ہاتھ ان کا
بے خودی تیرا برا ہو ، مجھے کب ہوش آیا
دو گھڑی ہو بھی گئی گر غمِ فردا سے نجات
چٹکیاں لیتا ہوا دل میں غمِ دوش آیا
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ