جب یوں ہی کبھی بیٹھے بیٹھے
کچھ یاد اچانک آ جائے
ہر بات پے دل بیزار سا ہو
ہر چیز سے دل گھبرا جائے
کرنا بھی مجھے کچھ اور ہی ہو
کچھ اور ہی مجھ سے ہو جائے
کچھ اور ہی سوچوں میں دل میں
کچھ اور ہی ہونٹوں پہ آ جائے
ایسے ہی کسی لمحے میں
چپکے سے کبھی خاموشی میں
کچھ پھول اچانک کھل جائیں
کچھ بیتے لمحے یاد آئے
اس وقت تمہاری یاد آتی ہے
جب چاندنی دل کے آنگن میں
کچھ کہنے مجھ سے آ جائے
اک خوابیدہ سی چھوتے کوئی
احساس پہ میرے چھا جائے
جب زلف پریشان چہرے پر
کچھ اور پریشان ہو جائے
کچھ درد بھی دل میں ہونے لگے
اور سانس بھی بوجھل ہو جائے
ایسے ہی کیسی اک لمحے میں
چپکے سے کبھی خاموشی میں
کچھ پھول اچانک کھل جائیں
جب شام ڈھلے چلتے چلتے
منزل کا نا کوئی نام ملے
ہنستا ہوا اک آغاز ملے
روتا ہوا اک انجام ملے
پلکوں کے لرزتے اشکوں سے
اس دل کو کوئی پیغام ملے
اور ساری وفاؤں کے بدلے
مجھ کو ہی کوئی الزام ملے
ایسے ہی کیسی اک لمحے میں
چپکے سے کبھی خاموشی میں
کچھ پھول اچانک کھل جائیں
کچھ بیتے لمحے یاد آئیں
اس وقت تیری یاد آتی ہے
شدت سے تیری یاد آتی ہے
تیری یاد آتی ہے
Posted on May 05, 2011
سماجی رابطہ