وہ پاس تھا تو زمانے کو دیکھتی ہی نا تھیں

تمام شب یونہی دیکھیں گے سو در آنکھیں
تجھے گنوا کے نا سوئیں گی عمر بھر آنکھیں

طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ نا جائیں کہیں !
یہ دشت شب میں ستاروں کی ہمسفر آنکھیں

ستم یہ کم تو نہیں دل گرفتگی کے لیے
میں شہر بھر میں اکیلا ، ادھر اُدھر آنکھیں

شمار اسکی سخاوت کا کیا کریں کے وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں

وہ پاس تھا تو زمانے کو دیکھتی ہی نا تھیں
بچھڑ گیا تو ہوئیں پھر سے در بدر آنکھیں

ابھی کہاں تجھے پہچاننے کی ضد کیجئیے
ابھی تو خود سے بھی ٹھری ہیں بے خبر آنکھیں

میں اپنے اشک بچا لوں گا کس طرح محسن ؟
زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر آنکھیں . . . !

Posted on Oct 26, 2011