یہ بکھری سی زلفیں یی پھیلا سا کاجل

یہ بکھری سی زلفیں یی پھیلا سا کاجل
یہ بیچین آنکھیں یہ سمٹا سا آنچل
تیرے حال سے سب پہچان لین گے
تجھے دِکھ کر سب مجھے جان لین گے
یہ بہکے قدم یہ لڑکھڑاتی جوانی
یہ بیتاب دل اور محبت دیوانی
شفق جیسے ہونٹوں پہ ابھری ہوئی ہے
میرے ہونٹوں کی ایک مہکتی نشانی
تیرے جسم سے اُڑتی میری یہ خوشبو
سنا دے گی سب کو یہ ساری کہانی
نا بن جائے اپنا ملن اک فسانہ
ابھی گھر نہ جانا
ابھی گھر نہ جانا . . . !

Posted on May 11, 2012