بچھڑے تو قربتوں کی دعا بھی نا کر سکے
بچھڑے تو قربتوں کی دعا بھی نا کر سکے ،
اب کے تجھے سپرد خدا بھی نا کر سکے ،
تقسیم ہو کے رہ گئے سد کرچیوں میں ہم ،
نام وفا کا قرض ادا بھی نا کر سکے ،
نازک مزاج لوگ تھے ہم جیسے آئینہ ،
ٹوٹے کچھ اس طرح کے صدا بھی نا کر سکے ،
خوش بھی نا رکھ سکے تجھے اپنی چاھ میں ،
اچھی طرح سے تجھ کو خفا بھی نا کر سکے ،
ایسا سلوک کر کے تماشائی ہنس پڑیں ،
کوئی گلہ گزار گلہ بھی نا کر سکے ،
ہم منتظر رہے کوئی مشق ستم تو ہو ،
تم مصلحت شناس جفا بھی نا کر سکے .
منگل, 26 فروری 2013