کبھی جو عہد وفا میری جان
کبھی جو عہد وفا میری جان تیرے میرے درمیان ٹوٹے
میں چاہتا ہوں کے اس سے پہلے زمین پہ یہ آسمان ٹوٹے
تیری جدائی میں حوصلوں کی شکست دل پہ عذاب ٹھہری
کے جیسے منه زور زلزلوں کی دھمک سے کوئی چٹان ٹوٹے
اسے یقین تھا کے اس کو مرنا ہے پھر بھی خواہش تھی اس کے دل میں
کے تیز چلنے سے پیشتر دست دشمناں میں کمان ٹوٹے
سب دلیلیں سنبھال کر بھی میرے وکیلو یہ سوچ لینا
وہیں پہ میری شکست ہوگی جہاں بھی میرا بیان ٹوٹے
فنا کے تیلے پہ خیمہ جان ہوا کے جھونکے سے یوں گرا ہے
کے جیسے بدقستمی سے بزدل شکاریوں کی مچان ٹوٹے
وہ سنگ ہے تو گِرے بھی دل پر وہ آئینہ ہے تو چُبھ ہی جائے گا
کہیں تو میرا یقین بکھرے کہیں تو میرا گمان ٹوٹے
اجاڑ بن کی اُداس رُت میں غزل تو محسن نے چھیڑ دی ہے
کسے خبر ہے کے کس کے معصوم دل پہ اب کے یہ تان ٹوٹے ؟
کبھی جو عہد وفا میری جان تیرے میرے درمیان ٹوٹے
میں چاہتا ہوں کے اس سے پہلے زمین پہ یہ آسمان ٹوٹے
تیری جدائی میں حوصلوں کی شکست دل پہ عذاب ٹھہری
کے جیسے منه زور زلزلوں کی دھمک سے کوئی چٹان ٹوٹے
پیر, 03 دسمبر 2012